Faraz Faizi

Add To collaction

27-Jun-2022-تحریری مقابلہ(مسکراہٹ) اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام


ہمیں موقع مناسبت کے اعتبار سے ہر وقت مسکراتے رہنا چاہیئے، یعنی جب کسی سے ملاقات کریں تو مسکراکر ملیں، کسی بیمار یا پریشان حال لوگوں سے ملیں تو حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکراکر ملیں۔اگر ہم اپنے روز مرہ معاملات اور معمولات میں صرف ایک مسکراہٹ کا اضافہ کرلیں تو ”سنت، تجارت، سہولت اور برکت“ کا ایک امتزاج سامنے آئے گا۔ آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بھی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے، چنانچہ

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

ایک مرتبہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو ؟ عرض کی: میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں! یہ سن کر جان ِعالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ جلد 3 جون 2019 ص 44 / ابن ماجہ 91/4 ، حدیث 3443 )

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے کہ اپنے دینی بھائی سے مسکرا کر ملنا تمہارے لیے صدقہ ہے اور نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔(ترمذی جلد ٣:حدیث ١٩٦٣)
حضرت ام درداء رضی اللہ تعالی عنہا حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے فرماتی ہیں :کہ وہ ہر بات مسکرا کر کیا کرتے اور جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا "میں نے حسن اخلاق کے پیکر محبوب رب اکبر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دورانے گفتگو مسکراتے رہتے تھے۔(مکارم الاخلاق للطبرانی)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

ہاتھ ملانے میں مسکرانا مغفرت کا باعث ہے:

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا نفیع اعمی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے مصافحہ فرمایا (یعنی ہاتھ ملائے)اور مسکرانے لگے پھر پوچھا :جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا ؟میں نے عرض کی نہیں! تو فرمانے لگے "نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے مجھے شرفِ ملاقات بخشا تو میرے ساتھ ایسا ہی کیا پھر مجھ سے پوچھا: جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا؟میں نے عرض کی نہیں !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو مسلمان ملاقات کرتے وقت جب مصافحہ کرتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے اللہ پاک کیلئے مسکراتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (معجم اوسط حدیث نمبر ٧٦٣٠)

باغ جنت میں محمد مسکراتے جائیں گے 
پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے

قارئین معزز!! مذکورہ حدیث پاک میں لفظ" اللہ کے لیے" اچھی نیت کی صراحت کرتا ہے۔بہرحال کسی مسلمان سے ہاتھ ملانا اور دورانے گفتگو مسکرانا صرف اسی صورت میں باعث ثواب آخرت و مغفرت ہے جبکہ یہ ہاتھ ملانا اور مسکرانا صرف اللہ پاک کی رضا پانے کی نیت سے ہو۔اپنی ملنساری کا سکہ جمانے یا کسی سیاسی شخصیت کی خشنودی پانے،دنیوی مذموم مفاد پرستی والی دوستی بڑھانے،اور معاذ اللہ امرد کے ہاتھوں کو چھونے اور اس کی جوابی مسکراہٹ کے ذریعے گناہوں بھری لزت پانے وغیرہ بری نیتوں کے ساتھ نہ ہو۔واقعی وہ مسلمان بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو رضائے الٰہی پانے اور اپنی مغفرت کروانے، اتباع سنت کا ثواب کمانے،مسلمان کے دل میں خوشی داخل فرمانے،وغیرہ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حسب حال ملاقات کرتے اور مسکراتے ہیں۔

کھلکھلا کر ہنسنا مناسب نہیں کیوں کہ یہ سنت نہیں ہے۔بلکہ یہ تو شیطان کی جانب سے ہے۔جیسا کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: القہقہۃُ من الشیطانِ وتبسُمُ من اللہ "یعنی قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور مسکرانا اللہ کی طرف سے۔(معجم الصغیر حدیث نمبر ١٠۵٣) 

قہقہے سے کیا مراد ہے؟
حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قہقہہ سے مراد آواز کے ساتھ ہنسنا ہے،شیطان اسے پسند کرتا ہے اور اس پر سوار ہو جاتا ہے،جبکہ تبسّم بغیر آواز کے تھوڑی مقدار میں ہنسنا ہے۔(فیض القدیر ،تحت الحدیث :٦١٩٦) مشہور مفسر قرآن حکیم الامت حضرت احمد یار خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :مسکرانا اچھی چیز ہے اور قہقہہ بری چیز ،تبسم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتیں کریمہ تھی لہذا جب کسی سے ملو مسکرا کر ملو۔ (مراۃالمناجیح)
کیا صحابہ ہنستے تھے؟ 
حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ ہنستے تھے؟فرمایا ہاں" اور ان کے دلوں میں ایمان پہاڑ سے مضبوط تھا۔(شرح السنہ)مشہور مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:شاید اس پوچھنے والے نے وہ حدیث سنی ہوگی "زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کرتا ہے" تو اس نے سوچا ہوگا کہ حضرات صحابہ علیھم الرضوان کبھی نہ ہنستے ہوں گے۔کیونکہ وہ حضرات تو زندہ دل تھے تو انہیں ہنسی سے کیا تعلق !(سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاں میں) جواب (دینے)کا مقصد یہ ہے کہ کہ ہنسنا حرام نہیں حلال ہے۔ وہ حضرات (یعنی صحابہ کرام علیہم الرضوان)وہ ہنسی نہ ہنستے تھےجو دل مردہ کر دے،یعنی ہر وقت ہنستے رہنا بلکہ وہ ہنسی ہنستے تھے جو دل کو شگفتہ(تروتازہ) رکھے اور سامنے والے کو بھی شگفتہ بنا دے۔(مرآۃالمناجیح)

کسی کو ہنستا دیکھ کر پڑھنے کی دعا:
جب کسی کو ہنستا دیکھے تو" بخاری شریف" میں وارد یہ دعا پڑھ لینی چاہیے "اضحک اللہُ سنّک" یعنی اللہ پاک تجھے ہنستا رکھے۔(بخاری،حدیث نمبر:٦٠٨۵) 

اللہ ہم سب کو توفیق رفیق عطاکرے۔

آپ کا: فرازفیضی

   14
9 Comments

Khan

02-Jul-2022 06:55 PM

Nyc

Reply

Chudhary

01-Jul-2022 06:37 PM

Nice

Reply

Aniya Rahman

01-Jul-2022 06:01 PM

Nice

Reply